ڈاکٹر عبد اللہ فیصل خان
عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ بیک وقت دو محاذوں پر سرگرم ہیں پہلا محاذ ہے کی مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی اعتبار سے برادران وطن کے برابر لا کر کھڑا کرنا، ان کا دوسرا مشن ہے خواتین کو معاشرے میں زندگی کے ہر شعبے میں برابر کا مقام عطا کرنا، محترمہ ایک عرصے سے دونوں محاذوں پر سرگرم ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کے نشانے پر بھی ہیں جو مسلمانوں کو اور خواتین کو یہ مقام نہیں دینا چاہتے یا جن کے مفادات اور قیادت خطرے میں پڑی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کی عظیم شخصیات کی طرح محترمہ نوہیرا شیخ کو بھی بدترین قسم کی ابتلاء وآزمائش کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ ناعاقبت اندیشوں کی وجہ سے زنداں کے حوالے بھی کی گئیں۔ لیکن ایک آئرن لیڈی کی طرح قائم ودائم رہیں، سازشوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے معاملہ چونکہ عدالتوں میں زیر غور ہے اس لئے ہم اس پر فی الحال کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔ بہر حال خوشی کی بات ہے کہ محترمہ اس وقت کھلی ہوا میں سانس لے رہی ہیں اور اپنے مشن پر واپس آگئی ہیں۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے اور بہت جلد عروس البلاد ممبئی کی سر زمین پر بھی قدم رکھنے والی ہیں، اس تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی، کیوں کہ ہماری نظر جذبۂ شاہین نامی ایک کتاب پر پڑی ہے جو اس وقت زیر تبصرہ ہے، جذبۂ شاہین کے نام سے اس کتاب کو ممتاز عالم دین اور استاذ تفسیر القرآن و احادیث مولانا عزیز الرحمن صاحب کے لائق فرزند پیغام مادر وطن کے مدیر وممتاز صحافی مطیع الرحمن عزیز صاحب نے تصنیف وترتیب دیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے، معیشت اور عدالتی مقدمات جیسے پیچیدہ اصطلاحات والے موضوع کو بھی انہوں نے نہایت سلیس آسان شستہ اور شائستہ زبان میں رقم کی ہے۔ اس کتاب میں عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے حالات زندگی ان کی کامیابیوں اور ان کے ابتلاء وآزمائش کا نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ محترمہ نوہیرا شیخ جس منصوبے پر عمل کر رہی ہیں وہ اپنے آپ میں ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے ملک کی معیشت ومعاشرت کی کایا کلپ ہو جائے گی، ظاہر ہے جن لوگوں کے مفادات اور اجارہ داری پر فرق پڑے گا وہ ہار ماننے والے نہیں ہیں، وہ مذموم سازشیں کریں گے۔
عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے جس حوصلہ مندی کے ساتھ دوبارہ مسلمانوں کی معاشی ومعاشرتی تعلیمی وثقافتی میدان میں قدم رکھا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ حیدرآباد کے بعد تروپتی ہیرا مارٹ کا شاندار افتتاح کیا، ڈاکٹر عالمہ نوہیرا شیخ کی ممبئی آمد عوام کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار اور منافع بخش کاروبار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہیرا ڈجیٹل گولڈ بزنس کا بھی افتتاح کیا گیا، اس سے قبل یکم جنوری کو حیدر آباد میں ہیرا مارٹ وڈجیٹل گولڈ بزنس کا افتتاح کیا گیا تھا، جس میں ملک بھر سے ہزاروں کی تعدادمیں افراد نے شرکت کی تھی، تروپتی میں بھی ہیرا مارٹ اور ڈجیٹل گولڈ افتتاح کے موقع پر ہزاروں افراد شریک ہوئے اور خوشی کااظہار کیا محترمہ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے افتتاح کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہیرا گروپ کے تحت چلنے والے تمام ادارے اور بزنس سینٹرس سپریم کورٹ کے حکم سے ایک ایک کرکے کھولے جا رہے ہیں، ہیرا ڈجیٹل گولڈ ہندستان میں اپنے قسم کا پہلا اور نایاب تجارت کی ایک پہل ہے، اس طرح کا دوسرا کوئی بزنس ابھی تک ہندستان میں نہیں کھولا گیا تھا، ہیرا ڈجیٹل گولڈ کی ملک اور دنیا بھر سے بڑی پذیرائی ہو رہی ہے، اور عالمی منڈی اس نئی پہل کے تعلق سے حیران وششدر ہے کہ آخر اس قدر ایک ہی جھٹکے میں کیسے اتنے بڑے پیمانے پر نیا بزنس کھول دیا گیا، جس کےلئے عالمی تجارتی منڈیاں سوچنے کی شروعات بھی نہیں کر سکی تھیں۔
کچھ لوگوں نے عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا ہے لیکن حق وباطل کی اس جنگ میں ان شاءاللہ حق کی فتح ہو گی، عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ اپنے عزائم میں کامیاب ہوں گی یہی اس کتاب کا مقصد ہے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے فلسفے اور سوانح حیات پر لکھی جانے والی یہ پہلی مستند معتبر اور مفصل کتا ب ہے جو آنے والے دور میں معاشیات کے اسکالر حضرات کے لئے حوالے کا کام کرے گی۔ جناب مطیع الرحمن سلفی صاحب جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں خود بھی عالم ہیں اور ممتاز عالم دین کےصاحبزادے ہیں ، اور محترمہ نوہیرا شیخ کے ساتھ ایک عرصے سے جڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں نوہیرا شیخ کی کافی مدد بھی کی ہے۔ اس کے لئے مطیع الرحمن صاحب دہلی سے ممبئی، حیدرآباد کا مسلسل دورے کئے اور ان کی رہائی کے لئے کوششیں کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے، ان کی حیثیت اس پورے معاملے میں ایک غیر جانب دار مبصر ومشاہد سے زیادہ عینی شاہد یعنی چشم دید گواہ کی ہے امید ہے کہ اس کتاب کی علمی حلقوں میں پذیرائی کی جائےگی ہمارا مشورہ ہے کہ اس کتاب کو انگریزی اور ہندی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا جائے، تاکہ معیشت کے شعبے میں کام کرنے والوں کی رہنمائی ہوسکے اور پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔